Oral Sex

Question:

 My husband forces me to do oral sex with him. When all this started couple of years ago, I refused to do that but he gets angry on me and not only he separated his bed, he stop talking to me as well.  When I tried to confront him with this as “haram” act, he challenges me to find any authenticate narration in support of my argument which I failed to find. All I was able to find oral sex as “makroh” at worst and thing which is prohibited is to tastes the discharge coming out. To confront this argument, he started using condoms but did not stop the practice.  I had the argument once again with him around a month ago and this time his response was harsh, he said if I don’t want to please me, he does not want to keep me. In other words, not directly but he threaten me with divorce. My hesitation with this act is more from religious standing. I pray and fast and practice Islam in my daily life.

I have read multiple boards on the issue but none of them gives a clear answer. I am more confuse then enlighten on the issue. Some of them talk about morality and some of then talk from hygiene perspective but no clear answer from Islamic point of view. Please ease my situation and answer me in black and white about the ruling on oral sex. In my situation, should I seek the separation/divorce if my husband keeps insisting me in engaging oral sex or I am over stressing myself on an act which is permissible between husband and wife?

Answer:

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful.

As-salamu ‘alaykum wa-rahmatullahi wa-barakatuh.

The need for intimacy between spouses is normal. It should however be fulfilled with shame, modesty and dignity.

Nabi ﷺ said:

الحياء من الإيمان

“Hayaa (modesty) is part of Faith” [Bukhari, Kitaabul Imaan]

  • If oral sex entails the ingestion of any impurities, whether this is semen (Mani) or pre-ejaculatory fluid (Madhi), or the man taking the fluids of the woman in his mouth, then this is not permissible.
  • If there is no ingestion of impurities or any fluids during oral sex, then this is not prohibited.

Some Fuqaha have however deemed it Makruh (disliked). Imam Burhan al-Din states the ruling of makruh (disliked) but also adds on the reasoning as follows in his famous book, Al-Muhit al-Burhani:

قيل: يكره؛ لأنه موضع قراءة القرآن، فلا يليق به إدخال الذكر فيه

“It is said that it is makruh because it (i.e. the mouth) is a place where the Qur’an is recited from; therefore, it is not suitable for a person to insert his private part into such a place.”

From the statement above we may infer that Imam Burhan al-Din’s personal opinion on the matter is that it is makruh as he gave a reasoning (or `illah) for it as well.

Mufti Abdur Raheem Lajpuri (in his Fatawa Rahimiyyah) declares such an action as “extremely disliked and a sin.” He further states that “it shows resemblance to dogs, goats, and other animals.” From a moral aspect he also states, “Heed my words! How can one’s heart be satisfied by taking the same mouth one utilizes for reading the kalimah, reciting the Qur’an, and sending blessings on the beloved Messenger (ﷺ) and using it for such a foul act.

And Allah Ta’ala Knows Best

[Mufti] Safwaan Ibn Ml Ahmed Ibn Ibrahim

Darul Iftaa
Limbe, Malawi

___________________________

Askimam: 30895

 فتاوی عثمانی (405/4) – معارف القرآن

سوال:  اپنا عضو تناسل بیوی کے ہاتھ میں پکڑا دینا اور اس سے مسلوانا، نیز عضو تناسل بیوی کے منہ میں دینا جائز ہے یا نہیں اگر مادہ خارج نہ ہو اور عضو تناسل منہ میں جاکر چھپ جائے تو غسل فرض ہوگا یا نہیں؟

جواب: پہلا عمل بلا کراہت جائز ہے، اور دوسرے عمل کی بھی گنجائش ہے، لیکن بعض فقہاء نے اس کو مکروہ کہا ہے۔ ۔۔۔اس لئے اس کا ترک کرنا بہتر ہے اور دونوں صورتوں میں بغیر انزال غسل واجب نہیں ہوتا۔

فتاوی عثمانی (406/4) – معارف القرآن

البتہ مختلف فیہ ہونے کی  وجہ سے تنزیہی مراد ہونے کا بھی احتمال ہے، اور ناجائز ہونے کی کوئی وجہ سوائے اس کے نہیں ہے کہ کوئی نجاست منہ میں جائے، ایسے میں یقینا نا جائز ہوگا، ورنہ کوئی عدم جواز کا سبب نہیں ہوسکتا۔

فتاویٰ رحیمیہ جلد ١٠  صفحہ١٧٩

اگر وہ صحبت کی درخواست کرنے میں شرم محسوس کرے اور شہوت سے مغلوب ہو کر مرد کے عضو مخصوص کو منہ میں لے لے تو معذوری ہے لیکن اس کی عادت کرلینا مکروہ ہے۔

 

نجم الفتاوی ( 339 /5 ) –

رسالة أقوال الفقهاء فی استمتاع الزوجین عن فرج الآخر عند الجماع
ہمبستری کے وقت زوجین کا ایک دوسرے کی شرمگاہ سے استمتاع 
اور مذاہبِ اربعہ کی تفصیلات کا بیان

(۷۰۱)زوجین کا ایک دوسرے کی شرمگاہ سے استمتاع
سؤال
مفتی صاحب! ایک مسئلہ بندے کیلئے الجھن کا سبب بنا ہوا ہے وہ یہ کہ زوجین کا ایک دوسرے کی شرمگاہ سے استمتاع کرنا(چھونا یا بوسہ لینا وغیرہ) یہ جائز ہے یا نہیں؟ اگر یہ جائز ہے تو ہمارے اکابر مثلاً مفتی رشیداحمد صاحب  وغیرہ نے اس پر نکیر کیوں فرمائی ہے نیز ایک اشکال اس پر یہ بھی ہے کہ ملاعبت کے وقت مذی مستقلا بلا اختیار نکل جاتی ہے اور ظاہر ہے کہ مذی نجس ہے اور نجس کا منہ میں جانا حرام ہے۔ اس پر بھی غور فرمائیں کیونکہ ہمارے علاقے کے ایک عالم کا کہنا ہے کہ فقہ کی کتابوں میں اس کی گنجائش لکھی ہے جو کہ ہمیں سمجھ نہیں آ رہی۔

الجواب بعون الملک الوھاب
صورت مسئولہ میں مذکورہ فعل ایک شنیع اور غیر مہذب فعل ہے اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ یہ غیر مسلموں کے افعال ہیں البتہ اس فعل کا اباحت کی حد تک جواز ائمہ اربعہ کے مذاہب میں موجود ہے۔ فقہ مالکی کی مشہور کتاب مواہب الجلیل میں علامہ حطاب  تحریر فرماتے ہیں :

قیل لأصبغ إن قوما یذکرون کراهته فقال من کرهه إنما کرهه بالطب لا بالعلم ولا بأس به ولیس بمکروه وقد روی عن مالک أنه قال لا بأس أن ینظر إلی الفرج فی حال الجماع۔ وزاد فی روایة ویلحسه بلسانه وهو مبالغة فی الإباحة ولیس کذلک علی ظاهره۔


” اصبغ سے کہا گیا کہ ایک جماعت (بیوی کی شرمگاہ کو دیکھنے کو) مکروہ کہتی ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ جو بھی اسے مکروہ کہتا ہے وہ طبی اعتبار سے ہے وگرنہ شرعی کوئی دلیل کراہت کی نہیں اور شرعاً اس میں نہ کوئی حرج ہے اور نہ کراہت (بلکہ یہ صرف طبّا ناپسندیدگی ہوگی) ۔ امام مالک سے روایت کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا ہمبستری کے وقت بیوی کی شرمگاہ کو دیکھنے میں کوئی حرج نہیں اور ایک روایت میں یہ زیادتی بھی ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ زبان سے شرمگاہ کو چاٹے۔ امام مالک کا یہ قول اباحت میں مبالغہ ہے جو کہ اپنے ظاہر پر نہیں۔“ (مواہب الجلیل علی مختصر خلیل ۵/۲۳)

اسی طرح فقہ شافعی کی کتاب اعانة الطالبین میں ذکر ہے:

تتمة: یجوز للزوج کل تمتع منها بما سوی حلقة دبرها، ولو بمص بظرها أو استمناء بیدها

تتمہ: شوہر کیلئے بیوی سے ہر قسم کا تمتع جائز ہے سوائے اس کی دبر (موضع اجابت) سے۔اگرچہ یہ تمتع عورت کی شرمگاہ کے چوسنے یا اس کے ہاتھ سے مشت زنی کرانےکی صورت میں ہو۔“ (اعانة الطالبین ۳/۵۲۹)
فقہ حنبلی کی کتاب ”کشاف القناع عن متن الاقناع“ میں تحریر ہے:

وقال القاضی یجوز تقبیل فرج المرأة قبل الجماع ویکره بعده

’’قاضیؒ فرماتے ہیں کہ عورت کی شرمگاہ کا بوسہ لینا جماع سے قبل جائز ہے اور جماع کے بعد مکروہ ہے۔ ‘‘(کشاف القناع ۵/۱۶)
فقہ حنفی کی مایہ ناز کتاب رد المحتار میں نقل ہے: 

وعن أبي يوسف سألت أبا حنيفة عن الرجل يمس فرج امرأته وهي تمس فرجه ليتحرك عليها هل ترى بذلك بأسا قال لا وأرجو أن يعظم الأجر ذخيرة


’’امام ابو یوسف نے امام ابو حنیفہ  سے دریافت فرمایا کہ ایک شخص اپنی بیوی کی شرمگاہ کو چھوتا ہے اور بیوی اس کی شرمگاہ کو تاکہ مرد میں حرکت بڑھ جائے تو کیا آپ اس میں کوئی حرج سمجھتے ہیں؟ امام صاحب نے جواب دیا: نہیں بلکہ مجھے امید ہے کہ انہیں زیادہ ثواب ملے گا۔“ ( رد المحتار ۶/۳۶۷)

نیز فقہ حنفی کی ایک اور فتاویٰ کی مشہور کتاب ہندیہ میں ہے:

إذا أدخل الرجل ذكره في فم امرأته قد قيل يكره وقد قيل بخلافه كذا في الذخيرة

”نوازل میں ہے جب مرد اپنا آلہ تناسل عورت کے منہ میں داخل کردے تو کہا گیا ہے کہ ایسا کرنا مکروہ ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسا کرنا مکروہ نہیں۔ ذخیرہ میں یہی ذکر ہے۔“ (الهندیة ۵/۳۷۲)

اسی طرح محیط برہانی میں یہ جزئیہ ان الفاظ میں ذکر ہے:

إذا ادخل الرجل ذکره فی فم امرأته یکره لأنه موضع قراءة القرآن فلا یلیق به إدخال الذکر به وقد قیل بخلافه ایضاً

’’اگر مرد عورت کے منہ میں اپنا آلہ تناسل داخل کرے تو یہ مکروہ ہے کیونکہ منہ قرآن پاک پڑھنے کی جگہ ہے تو اس میں آلہ کا داخل کرنا مناسب نہیں اور ایک قول اس میں اس کے برخلاف (عدمِ کراہت) کا بھی ہے۔“ (محیط برھانی ۸/۱۳۴)

نیز موسوعہ فقہیہ جس میں مذاہب اربعہ کی تفصیلات جمع کی گئی ہیں اور دورِ حاضر کے علماء کی ایک جماعت نے اسے تیار کیا ہے، اس میں مسئلہ زیر بحث سے متعلق یہ تفصیل تحریر ہے:

لمس فرج الزوجة : اتفق الفقهاء على أنه يجوز للزوج مس فرج زوجته . قال ابن عابدين : سأل أبو يوسف أبا حنيفة عن الرجل يمس فرج امرأته وهي تمس فرجه ليتحرك عليها هل ترى بذلك بأسا ؟ قال : لا ، وأرجو أن يعظم الأجروقال الحطاب : قد روي عن مالك أنه قال : لا بأس أن ينظر إلى الفرج في حال الجماع ، وزاد في رواية : ويلحسه بلسانه ، وهو مبالغة في الإباحة ، وليس كذلك على ظاهره و قال الفناني من الشافعية : يجوز للزوج كل تمتع منها بما سوى حلقة دبرها ، ولو بمص بظرها وصرح الحنابلة بجواز تقبيل الفرج قبل الجماع ، وكراهته بعده”(الموسوعة الفقهیة: ۳۲/۹، فرج)


ان عبارات سے معلوم ہو اکہ امام مالککے نزدیک شرمگاہ کو چوسنے، امام شافعیکے نزدیک” مصّ بظر“کے الفاظ، امام احمد کے نزدیک شرمگاہ کا قبل از جماع بوسہ لینے کا جواز اور امام صاحبسے امام ابو یوسفکی روایت کے مطابق شرمگاہ کو چھونے پر ثواب کی امید یہ سب کچھ یہ بتاتا ہے کہ یہ عمل حرامِ قطعی یا ممنوع فعل نہیں بلکہ اس میں اباحت اور بوقت ضرورت جوازہے۔ نیز ہندیہ میں کراہت اور عدمِ کراہت دنوں قول نقل ہیں لیکن محیط برہانی میں ”فلا یلیق بہ“ یعنی نامناسب ہے کے الفاظ یہ بتا رہے ہیں کہ اگر کراہت والا قول بھی لے لیا جائے تو کراہت تنزیہی ہی مراد ہوگی وگرنہ دوسرے قول میں تو اور تخفیف ہے۔ 

نیزمرد یا عورت کی شرمگاہ کوئی نجس چیز نہیں، نہ ان کے چھونے یاہاتھ لگانے سے وضو کرنا ضروری ہوتا ہے۔ آپ  سے اس سلسلے میں دریافت کیا گیا:

عن قیس بن طلق ؓ عن ابیه سئل النبی صلی الله علیه وسلم افی مس الذکر وضوء قال: لا

’’ حضرت قیس بن طلق سے روایت ہے وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ آ پ  سے پوچھا گیا: کیا آلہ تناسل کو چھونےسے وضو کرنا ہوگا؟ آپ ﷺ نے جواب دیا: نہیں۔“ (طحاوی، ۱/۶۰)

ایک اور اثر ہے :
عن قیس بن حازم رحمه الله قال سئل سعد ؓ عن مس الذکر فقال ان کان نجسا فاقطعه لا بأس به۔

’’حضرت قیس بن حازم سے مروی ہے حضرت سعد سے آلہ تناسل کو چھونے (سے وضو) سے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے جواب دیا اگر یہ نجس ہے تو اسے کاٹ (کر پھینک) دو، اس(کو چھونے) میں کوئی حرج نہیں۔“ (طحاوی ۱/۶۲)

جب یہ نجس بھی نہیں اور فقہاء نے اس کی گنجائش بھی لکھی ہے کہ زوجین ایک دوسرے کی شرمگاہ سے استمتاع کریں تو پھر اسے مطلقاً حرام کہنا مناسب نہیں البتہ یہ جواز فقط اباحت کے درجے میں ہے، یہ کوئی مرغوب فیہ چیز نہیں اور نہ اسلام میں ایسی کوئی ترغیب موجود ہے۔

اگر ایک شخص کو شہوت یا تسکین اسی طرح آتی ہو تو اس کے لئے یہ فعل کرنے کی گنجائش ہے لیکن اسے عادت بنالینا یا بلا ضرورت ایسا کرنا درست نہیں کیونکہ فی نفسہ یہ ایک غیر مناسب اور بد تہذیب قسم کا فعل ہے جس میں جانوروں کے فعل کے ساتھ مشابہت ہے لہٰذا اس سے از حد اجتناب کیا جائے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اردو فتاویٰ میں ہمارے بعض اکابرین نے اس فعل کو مبالغۃً اور شدت کی بنا پر مطلقاً حرام قرار دیا ہے تاکہ اس فعل کی قباحت اور شناعت دل میں بیٹھ جائے اور لوگ اسے عادت نہ بنالیں نیز مسلم معاشرہ بھی انگریزوں کی طرح انسانیت کے درجے سے تنزل کرکے حیوانیت میں نہ اتر آئے بہرحال ضرورت کے وقت اگر طرفین کی رضامندی ہو تو یہ فعل کیا جاسکتا ہے۔

جہاں تک تعلق ہے مذی کے خروج کا تو یہ بندے، بندے پر ہوتا ہے۔ مذی اگرچہ غیر اختیاری طور پر نکلتی ہے لیکن اگر اس فعل کی ضرورت ہو تو اندازہ لگاکر مذی کے خروج سے قبل علیحدہ ہوا جاسکتا ہے اور اگر منہ میں ہی خروج ہوجائے تو اسے تھوک دیا جائے جیسا کہ عورت کے پستان چوسنا جائز ہے لیکن اس میں دودھ کے نکل آنے کا احتمال بھی ہوتا ہے اور اس دودھ کا پینا جائز نہیں لہٰذا اسے بھی تھوکنے کا حکم دیا جاتا ہے اسی طرح اگر مذی منہ میں آجائے تو اسے بھی تھوک دیا جائے۔

بہرحال یہ فعل مطلقاً حرام بھی نہیں اور نہ مطلقاً جائز ہے بلکہ بوقت ضرورت اس کی گنجائش ہے البتہ از حد اجتناب کرنے کی کوشش کی جائے یہی شرعی تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔

لمافی اعانة الطالبین (۵۲۹/۳): (ولو بمص بظرها) أی ولو کان التمتع بمص بظرها فإنه جائز قال فی القاموس البظر بالضم الهنة وسط الشفرة العلیا اه والهنة هی التی تقطعها الخاتنة من فرج المرأة عند الختان (قوله: أو استمناء بیدها) أی ولو باستمناء بیدها فإنه جائز۔
وفی الفقه الاسلامی وادلته (۲۶۵۰/۴): أ۔ إذا کانت المرأة زوجة: جاز للزوج اللمس والنظر إلی جمیع جسدها حتی فرجها باتفاق المذاهب الاربعة، والفرج محل التمتع۔ 
وفی الفقه الاسلامی وادلته (۲۶۴۱/۴) الحظر والاباحة،وربما كان أسوأ من الدبر: وضع الذكر في فم المرأة ونحوه، مما جاءنا من شذوذ الغربيين، فيكون ذلك حراماً لثبوت ضرره وقبحه شرعاً وذوقاً.

فتاوی دار العلوم دیوبند

سوال # 250

میں اورل سیکس کے بارے میں سوال کرنا چاہتا ہوں۔ کیا یہ جائز ہے کہ عورت اپنے شوہر کا عضو مخصوص اپنے منھ میں لے ، اسے بوسہ دے؟ والسلام

Published on: Apr 21, 2007

جواب # 250

بسم الله الرحمن الرحيم

(فتوى: 13/د=13/د)

مرد کے عضو مخصوص کا عورت کو منھ میں لینا یا اس کو چومنا اگر اس پر نجاست نہ بھی لگی ہو، اچھا نہیں ہے، مکروہ ہے۔ یہ طریقہ جانوروں کے طریقہ کے مشابہ ہے۔ حیاء کو ایمان کا اہم شعبہ قرار دیا گیا ہے: الحیاء شعبة من الإیمان حضرت عائشہ رضي الله عنها فرماتی ہیں کہ میں نے نہ تو آپ کے ستر کو دیکھا اور نہ آپ نے میرے ستر کو کبھی دیکھا۔

فطرة سلیمہ کا تقاضہ ہے کہ اس سے بچے مگر عورت اگر غلبہٴ شہوت کے تقاضہ سے ایسا کرلے تو ناجائز نہیں ہے: في النوازل إذا أدخل الرجل ذکره في فم امرأته قد قیل یکره وقد قیل بخلافه کذا في الذخیرة (فتاویٰ عالمگیري: ج5 ص372)

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

سوال # 150188

مفتیان کرام کی خدمت میں ایک استفتائکے جواب کی تحقیق مطلوب ہے۔
ایک مفتی صاحب سے شرمگاہ کو بوسہ دینے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہیں نے ان الفاظ میں جواب دیا (شرمگاہ کو بوسہ دینا ؟)
سوال یہ ہے کہ اپنی بیوی کے فرج کو بھوسہ دینا شرعی کیا حکم ہے مع تفصیل مذاہب اربعہ حوالہ سے فرمائیں سائل:مخفی ……… 

Published on: Apr 27, 2017

جواب # 150188

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 961-922/L=7/1438
شریعت میں جماع کرتے وقت کچھ آداب ہیں، مثلاً: بقدر ضرورت ستر کھولا جائے اس وقت شرمگاہ پر نظر نہ کی جائے، بالکل جانور کی طرح ننگا ہوکر جماع نہ کیا جائے اور تقبیل أحد الزوجین فرج الآخر میں ان آداب کی رعایت ناممکن ہے، پھر زبان جس سے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے اس سے شرمگاہ کو بوسہ لینا وغیرہ کسی بھی طرح مناسب معلوم نہیں ہوتا، نیز یہ جانوروں کا طریقہ ہے؛ اس لیے بہرصورت ایک مسلمان کو اس سے پرہیز کرنا چاہیے، باقی اگر کسی نے غلبہ شہوت میں ایسی حرکت کرلی اور شرمگاہ پر نجاست نہیں لگی ہوئی تھی تو ناجائز یا حرام نہیں کہا جائے گا۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

Check Also

CHILD END UP WITH DEPRESSION

Question: Is it haram to have surgery so that I can never have kids (tubal …